ہمارے مزاج کی بنیادی خصلتیں

مجھےامید ہے کہ کسی دن کوئی محقق یقین سے تصدیق کر دے گا کہ راج کا لفظ آج سے پانچ ہزار سال پہلے بھی ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتا تھا جو اینٹوں کی چنائی کرنے کا ماہر ہوتا تھا۔ بلکہ مجھے تو یہ بھی توقع ہے کہ اس زمانے میں راج کہلانے والا شخص شہر کی گلیوں کی سیدھ اور شہر کے آبی نکاس وغیرہ کے تمام کاموں میں ماہر ہو گا جن کی توقع آج ہم کسی ٹائون پلینر سے کرتے ہیں۔ قرینِ قیاس ہے کہ جس دور میں ہڑپہ اور موہنجودڑو کے شہر پنپ رہے تھے،اس زمانے کے لوگ اس فن کے ماہروں کو اپنی شہری تنظیم کا مکمل اختیار دے دیتے تھے اورباقی معاملات اپنے شہر کی مخصوص معیشت کے تقاضوں کے مطابق طے کرتے تھے۔ یعنی، ہڑپہ، جہاں زراعت اور مَنکے بنانے کا فن پنپتا تھا، اس معیشت کے مطابق تجارت اور صنعت کے طریقے اختیار کر کے اس عمارت کے ساتھ اپنی زندگی کو مربوط کرتا ہو گا جسے اناج گودام سمجھا گیا ہے۔ موہنجودڑو کے شہر کی مرکزی عمارت کو بڑا ہمام سمجھا جاتا ہے، اس کا معاشی مزاج اس تعمیر سے ظاہر ہوتا ہو گا، شاید یہ کوئی مذہبی مرکز ہو۔ ساحل سمندر کے شہروں میں کشتیوں کے لنگر انداز ہونے کے مقام کی عمارت وہاں کی تنظیم کا محور تھا۔ پھر بھی سب شہروں کا فنِ تعمیر ایک جیسا ہے۔ سب کی گلیاں سیدھی ہیں، جن میں کھروں میں داخل ہونے کا راستہ بڑی گلی سے ہٹ کر، چھوٹی گلیوں میں کھلتا ہے۔ ان کی تنظیم کا ہنر بھی راج کے فن کا حصہ ہوتا ہو گا۔ میرا قیاس ہے کہ ہر شہر کے لیے ایک ایسا راج ہوتا ہو گا جس کو معماروں کا سردار اور گرو مان کر اس کا “راج” فنِ تعمیر اور شہری تنظیم میں تسلیم کیا جاتا ہو گا۔ ممکن ہے کہ اس زمانے میں بھی ایسے گرو راج کو اس شہر کا راجہ کہا جاتا ہو۔ چونکہ اس دور میں ہمیں حکومت کی موجودگی کے آۤثار نہیں ملتے، چنانچہ،شاید اِس کا راج اُس طرح کا نہ ہو جس میں حاکمیت کی شکل پائی جاتی ہو۔

معلوم ہوتا ہے کہ خطہ پاکستان میں بسنے والے اس زمانے کے لوگ کسی حاکم، کسی مذہبی پیشوا یا مقتدر کے حکم کے پابند نہ تھے۔ اس اعتبار سے وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب اور اس سے منسلک تمدن انتہائی منفرد ہے۔ اس کے بارے میں جس یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تجارت پر مبنی شہروں کا ایک جال تھا جس کی زراعت کا دارومدار سیلابی پانی پر تھا، اسی یقین سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس میں، کم و بیش، سات سو سال تک ایک جیسا فنِ تعمیر اور شہری تنظیم کا یکساں نظام رائج رہا۔ لیکن اس کے پیچھے کسی ریاست، کسی دفاعی فوج اور کسی مذہبی تنظیم کا کوئی ہاتھ نہیں ملتا۔ گویا، یہ لوگ ان تین اوصاف (تجارت، سیلابی کاشتکاری اور فنِ تعمیر و شہری تنظیم کی یکسانیت) کو رضاکارانہ طور پر تسلیم کرنے کے رواجوں کو اپنا کر، ایک ایسے اتفاق اور یکجہتی میں بندھ گئے جو سہولت اور اتفاقِ رائے پر مبنی، اپنے مسائل کا بہترین حل اور وسائل کا مناسب ترین استعمال جانتے ہوے ہم آہنگ ہوتے چلے گئے۔ لیکن جب فطرت نے حالات بدل دیئے تو یہ انوکھی شہری تنظیم بکھرگئی۔

کیونکہ اس تمدن میں بظاہر حکومت کا کوئی تصور نہیں تھا، اس لیئے شاید مقتدر اعلیٰ کی حیثیت علامتی طور پر راج اعظم یا گرو راج کی ہو گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ وقت کے ساتھ راج کا یہی لفظ حاکم کے لیے استعمال ہونے لگ گیا، شاید اس زمانہ میں جب آریا زبانیں بولنے والے لوگوں کا پہلا ریلا یہاں سے گزرا، یا پھر گندھارا تمدن کے دور میں، جب “پور” (یعنی شہر) کے مقتدر کو “پورس” کہنے والوں نے ساکا یا پارتھیا حاکم کے لیے پورس کا لفظ ترک کر کے راجہ کی اصطلاح پسند کر لی۔

وادیِ سندھ میں پیدا ہونے والا یہ قدیمی طریقہ پاکستانیوں کے مزاج کا ایک رخ ہے۔ یہ مزاج جس تمدن میں نمودار ہوا، اس کی جڑیں بلوچستان کے قدیم دیہاتی باسیوں کی زندگی میں تھیں جس کی  آۤبیاری کسی ایسے خانہ بدوش تاجر گروہ نے کی جو آج سے تقریباَ چھ یا سات ہزار سال پہلے کھوجک کے درے کے دونوں طرف تجارت کرنے لگا تھا۔ رفتہ رفتہ ان لوگوں نے مہرگڑھ اور کوٹ ڈی جی کے درمیان بھی تجارت شروع کر دی۔ یہ تہزیب تمدن بن گئی اور یہاں سے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف ان تمام علاقوں میں پھیل گئی جوآج خطہ پاکستان کا حصہ ہیں۔ اس تمدن کا زوال تقریباَ چار ہزار سال پہلے ہو گیا۔

آج سے چار ہزار سال پہلے دنیا کے کئی علاقوں میں گلہ بان لوگوں نے متمدن علاقوں کا رخ کیا۔ آج ہم ان کی شناخت کے لیے انہیں آریا زبانیں بولنے والے لوگ کہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک مورخ انہیں ایک جماعت تصور کر کے آریا قوم کہا کرتے تھے، لیکن اب اکثر مورخ متفق ہیں کہ یہ کئی جماعتوں پر مشتمل لوگ تھے جن کی بولی میں کچھ مشابہت تھی۔ چنانچہ اب ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ ان میں سے کسی بھی گروہ کا مزاج کیسا تھا۔ گویا ممکن ہے کہ ان میں کوئی جنگ جو ہوں اور ہڑپہ پر انہوں نے کبھی حملہ بھی کیا ہو؛ جبکہ کچھ اور گروہ پر امن ہوں اور انہوں نے وادی سندھ کےشہروں میں ملازمت اختیار کی ہو یا کسی پیشہ سے منسلک ہو گئے ہوں۔ البتہ ان میں کچھ یقینی طور پر ایسے تھے جن کے عقائد ہند اور سندھ میں مقبول ہو گئے اور ان کی معاشرتی تنظیم نے کشتری، برہمن، ویش اور شودر کی تقسیم کر کے ایک جماعت کو شہری زندگی میں داخل ہونے سے منع کیا اور “اچھوت” کا درجہ دے دیا۔ یہی نظام بھارت کا پہلا مذہب بنا اور اسی سے بدھ اور جین عقائد کا ردِعمل پیدا ہوا۔ اس رویہ کے بھی کچھ اثرات آج ہمارے پاکستانی مزاج کا حصہ بنے لیکن ان کی تاثیر بدھ مت نے بہت حد تک زائل کر دی۔

ہڑپہ تمدن کے مقابلہ پر پاکستانیوں کے مزاج کا دوسرا عظیم ورثہ گندھارا کے تمدن سے آۤتا ہے۔ یہ عہد، جس کی بنا تو شاید دارا کی ریاستی تنظیم اور پورس لقب اختیار کرنے والے شہری حاکموں نے رکھی، سکندر اور چندر گپت کی ریاستوں کے دور میں ارتقائی مراحل سے گزر کر ساکا، پارتھیا، کشان اور ہن گروہوں کی فتوحات کے دوران، بدھ مت کے عقائد اور عظیم ریاستی تنظیم کا نمونہ تھا۔ اس اعتبار سے یہ دور ہڑپہ اور مہنجودڑو کے تمدن کے بالکل برعکس تھا، لیکن پھر بھی پاکستانی مزاج پر اس کی چھاپ اُس دور سے کچھ کم نہیں۔ گندھارا میں تجارت اور سیلابی پانی کی معیشت شاید ریاست کی کمترین ترجیحات میں تھیں۔ رائے عامہ کو جاننے کی بنسبت مقتدر کو اپنے اقتدار سے غرض تھی؛ البتہ عوام کی خوشنودی کی خاطر ان کے عقیدہ کی سرپرستی کر کے یہ مخالف گروہ اقتدار میں ۤنے کے بعد اسی مندر کی سرپرستی کرنے لگ پڑتے تھے جو عوام میں مقبول ہو۔ یوں اس عہد میں کئی طرح کے مقتدر موجود تھے جو ایک دوسرے کے اختیار کا احترام کر کے اپنے اپنے اقتدار کی حفاظت کر لیتے تھے۔

چنانچہ یہ دونوں متضاد انداز پاکستانیوں کے مزاج میں پائے جاتے ہیں۔ یہی حقیقت ایک اعتبار سے ہماری توانائی کا بڑا سبب بن گئی ہے۔ تہم، ابھی تک ہماری یہی توانائی بے لگام اور منہ زور ہے، اس لیئے ہم قومی سظح پر فی الحال کبھی مکمل طور پر فعال نہیں رہتے۔ کبھی ہم سیاسی طور پر داخلی انتشار کی زد میں ۤ جاتے ہیں، اور کبھی معاشی طور پر۔ قدرت نے ہماری زمین کو ایسے انداز سے تشکیل دیا ہے کہ اس خطہ میں متفرق اور متعدد فطری ماحول چھوٹی اکائیوں کی شکل میں ایک دوسرے پر باہمی انحصار کے رشتہ میں بندھے ہوے ہیں۔ ایک علاقہ میں پیدا ہونے والے قدرتی مسائل دوسروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں، اس پر اضافی عنایت یہ کہ فطری مسائل کی ہر ممکنہ قسم کا بھی نمونہ ہمارے پاس ملے گا۔ سیلاب کیا، قحط کیا، زلزلہ کی، تودوں کا گرنا کیا؛ یہیں سے باہمی ہمدردی اور رقابت، دونوں کے جذبات ہمیں علاقائی طور پر ہمیشہ مربوط کر دیتے ہیں۔ ہم، حسبِ ضرورت، چاہیں تومعاشرتی تنظیم کو اپنا رہبر مان کر سماجی یا معاشرتی گروہ بندی کی بنا پر مسائل کا حل تلاش کر لیتے ہیں اور جب ضرورت پڑے تو ریاست کی بالادستی کو تسلیم کر کے اس کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک کے دانشور اور ہماری قوم کے پیشوا، خواہ مذہبی قیادت سے تعلق رکھتے ہوں یا دنیاوی سیاست میں پیش پیش ہوں، اس حقیقت کو سمجھ کر اس صلاحیت کو مناسب انداز سے قومی مفاد کے لیے استعمال کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *